ہ کیسی رات ہے، سپنے بھی ڈر رہے ہیں یہاں،
- ہر ایک چہرہ، کہانی ہے، آنسوؤں کی یہاں۔
- وہ روشنی کے جزیرے، ہوئے ہیں کہیں گم شاید،
- یہ کیسی شام ہے، سائے بھی بکھر رہے ہیں۔
دلوں کی بستی میں، ویرانیوں کا راج ہے اب،
- ہر ایک لمحہ، سوالوں کا بوجھ ہے اب۔
- وہ خواب جو تھے کبھی، آنکھوں میں جگمگاتے ہوئے،
- اب دھندلے سے ہو کر، ٹوٹتے بکھرتے ہیں۔
غبارِ وقت نے، چہروں کو دھندلا کر دیا ہے،
- ہر ایک رشتہ، فریبوں میں الجھ گیا ہے۔
- وہ معصوم سی ہنسی، کھو گئی ہے زمانے میں،
- یہ کیسی صبح ہے، پھول بھی مرجھا گئے ہیں۔
کتابِ زیست کے اوراق، یوں پلٹتے ہیں جیسے،
- کوئی کہانی، ادھوری سی، مٹ رہی ہو آہستہ۔
- وہ رنگ و بو کے فسانے، ہوئے ہیں خواب و خیال،
- یہ کیسی ہوا ہے، پتے بھی گر رہے ہیں۔
سکوتِ شب میں، ستاروں کی سرگوشی ہے مگر،
- ہر ایک دل میں، چھپی ایک خاموشی ہے مگر۔
- وہ خواب جو تھے کبھی، آنکھوں میں جگمگاتے ہوئے،
- یہ کیسی فضا ہے، سانس بھی گھٹ رہے ہیں۔
یہ کیسی راہ ہے، منزل بھی دھندلی ہے یہاں،
- ہر ایک قدم پہ، فریبوں کا جال ہے یہاں۔
- وہ چاہتوں کے جزیرے، ہوئے ہیں ویران سارے،
- یہ کیسا سفر ہے، راہی بھی تھک رہے ہیں۔
وہ دردِ دل جو چھپایا، ہے سینے میں برسوں سے،
- وہ آنسو جو نہ بہایا، ہے آنکھوں میں برسوں سے۔
- وہ زخم جو نہ دکھایا، ہے دنیا کو کبھی ہم نے،
- یہ کیسی آگ ہے، دل بھی پگھل رہے ہیں۔
یہ کیسی جستجو ہے، خود سے ہی گم ہیں ہم یہاں،
- ہر ایک لمحہ، سوالوں کی زد میں ہیں ہم یہاں۔
- وہ روشنی کے مینار، ہوئے ہیں تاریک سارے،
- یہ کیسا خلا ہے، رشتے بھی ٹوٹ رہے ہیں۔
وہ خواب جو تھے کبھی، آنکھوں میں سجاتے ہوئے،
- وہ لمحے جو تھے کبھی، دل سے لگاتے ہوئے۔
- وہ وعدے جو تھے کبھی، ہونٹوں پہ سجاتے ہوئے،
- یہ کیسی یاد ہے، لمحے بھی مٹ رہے ہیں۔
یہ کیسی دعا ہے، لبوں پہ ہے مگر خاموشی،
- ہر ایک دل میں، چھپی ہے ایک بے ہوشی۔
- وہ امیدوں کے چراغ، ہوئے ہیں مدھم سارے،
- یہ کیسا سکوت ہے، نغمے بھی بجھ رہے ہیں۔
یہ کیسا شور ہے، دل کو ڈراتا ہے یہاں،
- ہر ایک آہ، فضا میں بکھر جاتی ہے۔
- وہ پیار کی باتیں، اب لگتی ہیں بے معنی سی،
- ہر ایک رشتہ، فریبوں میں الجھتا ہے۔
یہ کیسی بے بسی ہے، دل کو توڑ دیتی ہے،
- ہر ایک کوشش، ناکام سی ہوتی ہے۔
- وہ امید کی لو، بجھنے سی لگتی ہے،
- ہر ایک سپنا، ادھورا سا رہ جاتا ہے۔
یہ کیسی تنہائی ہے، دل کو ستاتی ہے،
- ہر ایک یاد، آنکھوں میں سما جاتی ہے۔
- وہ خوشیوں کے لمحے، اب لگتے ہیں بیگانے سے،
- ہر ایک پل، اُداسی میں گزرتا ہے۔
یہ کیسی چاہت ہے، دل کو جلاتی ہے،
- ہر ایک تمنا، ادھوری رہ جاتی ہے۔
- وہ پیار کی باتیں، اب لگتی ہیں بے گانی سی،
- ہر ایک رشتہ، فریبوں میں الجھتا ہے۔
یہ کیسی زندگی ہے، سوالوں میں گھری ہوئی،
- ہر ایک جواب، ادھورا سا ملتا ہے۔
- وہ منزل جو تھی کبھی، آنکھوں کے سامنے،
- اب دھندلی سی ہو کر، دور کھڑی رہتی ہے۔
0 Comments